Posts

کیا آپ کسی سائکوپیتھک کو جانتے ہیں؟

  جب عام لوگ سائیکوپیتھز کے بارے میں سوچتے ہیں تو ان کے ذہن میں ان عادی مجرموں اور سیریل کلرز  کا تصور ابھرتا ہے جو اپنی زندگی کا بڑا حصہ کسی جیل میں گزارتے ہیں لیکن ماہرینِ نفسیات جانتے ہیں کہ سائیکوپیتھز میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو دنیاوی طور پر مالدار زندگی گزارتے ہیں لیکن اخلاقی طور پر بینک کرپٹ   ہوتے ہیں کیونکہ وہ بے ضمیر ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں بہت سے بظاہر کامیاب انجینیر‘  ڈاکٹر‘ وکیل‘ بزنس مین‘ مذہبی اور سیاسی رہنما شامل ہوتے ہیں۔ بعض بین الاقوامی کمپنیوں کے صدر اور ڈائرکٹر  اور بعض تو ملک کے صدر اور وزیر بھی بن جاتے ہیں۔    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں میں شخصیت کی ایسی کیا کجی ہوتی ہے جو ایک طویل عرصے تک لوگوں کی نگاہ سے اوجھل رہتی ہے۔ ایسے لوگوں کی جاہرانہ اور ظالمانہ’ غیر مہذب اور غیر اخلاقی حرکات اپنے خاندانوں اور معاشروں کے لیے بہت سے جذباتی اور معاشرتی مسائل کھڑے کرتی رہتی ہیں۔ بدقسمتی سے ایسے انسان نہ تو کوئی شرم محسوس کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں کوئی احساسِ جرم یا احساسِ گناہ ہوتا ہے۔ وہ اپنی تمام غیر اخلاقی اور پرتشدد حرکات ک...

آزاد کشمیر کا تعلیمی نظام

 یوں تو غلام اقوام معاشرے کی مختلف سطحوں پر ہونے والے استحصال کے نتیجے میں اندر ہی اندر بتدریج آزادی کے مختلف اسباق آپوں آپ پڑھتے رہتے ہیں اور جب آزادی کی جنگ چھڑتی ہے تو اس میں بنیادی اور مرکزی کردار بھی معاشرے کی وہی پرتیں ادا کرتی ہیں جو سب سے زیادہ دبی ہوئ اور کچلی ہوتی ہیں لیکن تیسری دنیا کے ممالک میں قومی اور عوامی آزادی کی تحریکوں میں یہاں کے طالبہ نے جو کردار ادا کیا ہے وہ کم اہمیت کا حامل نہیں ہے کیوں کہ یہ طالبہ ہی ہے جو اپنی ذاتی،گروہی یا طبقاتی مفادات محدود ہونے کی وجہ سے اس طرح کی تحریکوں میں آگے آگے رہتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر ان کو والدین اور سماجی "مصلحین "کی طرف سے مختلف اقسام کے الزامات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے کے یہ پڑھنے سے زیادہ سیاست کرنے میں  دلچسپی رکھتے ہیں اور یہ کہ ماں باپ کا پیسہ ضائع کرتے ہیں اور یہ کہ ملکی حالات بھی خراب کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ لیکن لیکچر باز اکثر اس تلخ اور دراصل توئین آمیز حقیقت کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ" جسے وہ پڑھائی کہتے ہیں وہ دراصل بچوں کے عقل اور شعور کو سلانے اور ان کو گرد و پیش سے بیگانہ ہو کر اداب غلامی رٹا لگانے ک...

فرمان قائداعظم "کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے"

  فرمان قائداعظم "کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے " کشمیر کو پاکستان میں شامل کرنے کے عوامی سیاستدان اور دانشور اکثر اوقات اپنی تقریروں  و تحریروں میں قائد اعظم محمد علی جناح کا یہ قول دہراتے رہتے ہیں لیکن جب بھی ان سے یہ پوچھا گیا کے یہ ارشاد انہوں نے کب اور کس موقع پر فرمایا تھا  تو جواب ملتا ہے کہ جی اپنے آخری ایام میں کوئٹہ میں  اخبار نویسوں سے بات کرتے ہوئے جناح صاحب نے یہ کہا تھا ۔ لیکن مقام حیرت ہے کہ  اخبار نویسوں کے اس اہم ترین ہستی  نے اس وقت کے اہم ترین مسئلے پر یہ انتہائی اہمیت کی خامل سوچ کا اظہار کیا اور کسی اخبار نویس نے اسے اپنے اخبار کی زینت نہ بنایا؟ ؟؟؟ جب کے اس کے برعکس 18 جون 1947 ء کو اپنے شروع کرتا اخبار "پاکستان ٹائمز "یہ قائد اعظم کا یہ پالیسی بیان شائع ہوا تھا  جس میں انہوں نے ریاستوں کے بارے مسلم لیگ کی پالیسی واضح کرتے ہوئے یہ کہا تھا : "ریاستیں  خودمختاری کا انتخاب کر سکتی ہے " کے سامنے صرف الحاق  پاکستان یا ہندوستان کے راستے ہیں نہیں "جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے یا نہیں "تو اس کا جواب یہ ہے ک...

خلافت راشدہ

  حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی براہراست تعلیم و تربیت اور عملی رہنمائی سے جو معاشرہ وجود میں آیا تھا اس کا ہر فرد  جانتا تھا کہ اسلام کے احکام اور اس کی روح کے مطابق کسی قسم کا نظام حکومت بنانا چاہیے۔اگرچہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اپنی جانشینی کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا،لیکن مسلم معاشرے کے لوگوں نے خود یہ جان لیا کہ اسلام ایک شوُروی  خلافت کا تقاضہ کرتا ہے۔اس لیے وہاں نہ کسی خاندانی بادشاہی کی بنا ڈالی گئی ،نا کوئی شخص طاقت استعمال کر کے برسراقتدار آیا نا آپ کسی نے خلافت حاصل کرنے کے لئے خود کوئی کوشش کی بلکے یکے بعد دیگرے چار اصحاب کو لوگ اپنی آزاد مرضی سے خلیفہ بنا کے چلے گئے۔اس خلافت کو امت نے خلافت راشدہ  قرار دیا ہے۔اس سے خود بہ خود یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ مسلمانوں کی نگاہ میں خلافت کا صحیح طرز یہی ہے۔ انتخابی خلافت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی کے لیے حضرت ابوبکرؓ کو حضرت عمرؓ نے تجویز کیا۔اور مدینے کے تمام لوگوں نے کسی دباؤ یا لالچ کے بغیر خود اپنی رضاورغبت سے انہیں پسند کرکے ان کے ہاتھ پر بیعت لی۔حضرت ابوبکر ؓ نے اپ...

بنی اسرائیل میں عامل نامی مالدار کا ایک واقعہ

  بنی اسرائیل میں عامیل نامی ایک مالدار تھا اس کے چچا زاد بھائی نے بطمع وراثت اس کو قتل کر کے دوسری بستی کے دروازے پر ڈال دیا اور خود صبح کو اس کے خون کا مدعی بنا وہاں کے لوگوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے درخواست کی کہ آپ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالی حقیقت حال ظاہر فرمائے  ۔اس پر حکم ہوا کہ ایک گائے ذبح کر کے اس کا کوئی حصہ مقتول کے ماریں وہ زندہ ہو کر قاتل کو بتا دے گا۔کیوں کہ مقتول کا حال معلوم ہونے اور گائے کے ذبح میں کوئی مناسبت معلوم نہیں ہوتی ۔ایسا جواب جو سوال سے رابطہ نہ رکھے جاہلوں کا کام ہے یا یہ معنی ہے کہ محاکمہ کے موقع پر استہزہ جاہلوں کا کام ہے انبیاء کی شان اس سے برتر ہے القصہ جب ہی بنی اسرائیل نے سمجھ لیا کہ گائے کا ذبح کرنا لازم ہے   تو انہوں نے آپ سے اس کے اوصاف دریافت کیے حدیث شریف میں ہے کے اگر بنی اسرائیل بحث نہ نکالتے تو جو گائے ذبح کر دیتے کافی ہو جاتی۔ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر وہ انشاء اللہ نہ کہتے تو کبھی وہ گائے نہ پاتے مسئلہ ہر نیک کام میں انشاءاللہ کہنا  مستحب اور باعث برکت ہے۔یعنی اب تشفی ہوئی اور پوری شان و صفت...